امام ابوحنیفہؒ نعمان بن ثابت حیات اور کارنامے
حضرت امام اعظم کا اسم گرامی ”نعمان“ اور کنیت ”ابوحنیفہ“ ہے۔ ولادت ۸۰ ھ میں عراق کے کوفہ شہر میں ہوئی۔ آپ فارسی النسل تھے۔ والد کا نام ثابت تھا اور آپ کے دادا نعمان بن مرزبان کابل کے اعیان واشراف میں بڑی فہم وفراست کے مالک تھے۔ آپ کے پردادا مرزبان فارس کے ایک علاقہ کے حاکم تھے۔ آپ کے والد حضرت ثابت بچپن میں حضرت علی کی خدمت میں لائے گئے تو حضرت علی نے آپ اور آپ کی اولاد کے لیے برکت کی دعا فرمائی اور دعا اس طرح قبول ہوئی کہ امام ابوحنیفہ جیسے عظیم محدث وفقیہ اور عابد و زاہد شخصیت پیدا ہوئی۔
آپ نے زندگی کے ابتدائی ایام میں ضروری علم کی تحصیل کے بعد تجارت شروع کی؛ لیکن آپ کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے علمِ حدیث کی معروف شخصیت شیخ عامر شعبی کوفیؒ (۱۷ھ- ۱۰۴ھ) -جنہیں پانچ سو سے زیادہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہے- نے آپ کو تجارت چھوڑکر مزید علمی کمال حاصل کرنے کا مشورہ دیا؛ چنانچہ آپ نے امام شعبی کے مشورہ پر علم کلام، علم حدیث اور علم فقہ کی طرف توجہ فرمائی اور ایسا کمال پیدا کیا کہ علمی وعملی دنیا میں ”امام اعظم“ کہلائے۔ آپ نے کوفہ، بصرہ اور بغداد کے بے شمار شیوخ سے علمی استفادہ کیا اور حصول علم کے لیے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور شام کے متعدد اسفار کیے۔
ایک وقت ایسا آیا کہ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے حضرت امام ابوحنیفہ کو عہدئہ قضا پیش کیا؛ لیکن آپ نے معذرت چاہی تو وہ اپنے مشورہ پر اصرار کرنے لگا؛ چنانچہ آپ نے صراحةً انکار کردیا اور قسم کھالی کہ وہ یہ عہدہ قبول نہیں کرسکتے، جس کی وجہ سے ۱۴۶ہجری میں آپ کو قید کردیا گیا۔ امام صاحب کی علمی شہرت کی وجہ سے قید خانہ میں بھی تعلیمی سلسلہ جاری رہا اور امام محمدجیسے محدث وفقیہ نے جیل میں ہی امام ابوحنیفہ سے تعلیم حاصل کی۔امام ابوحنیفہ کی مقبولیت سے خوفزدہ خلیفہٴ وقت نے امام صاحب کو زہر دلوادیا۔ جب امام صاحب کو زہر کا اثر محسوس ہوا تو سجدہ کیا اور اسی حالت میں وفات پاگئے۔ تقریباً پچاس ہزار افراد نے نمازِجنازہ پڑھی، بغداد کے خیزران قبرستان میں دفن کیے گئے۔ ۳۷۵ھ میں اس قبرستان کے قریب ایک بڑی مسجد ”جامعُ الامام الاعظم“ تعمیر کی گئی جو آج بھی موجود ہے۔ غرض ۱۵۰ھ میں صحابہ وبڑے بڑے تابعین سے روایت کرنے والا ایک عظیم محدث وفقیہ دنیا سے رخصت ہوگیا اور اس طرح صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے خوف سے قاضی کے عہدہ کو قبول نہ کرنے والے نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا؛ تاکہ خلیفہٴ وقت اپنی مرضی کے مطابق کوئی ایسا فیصلہ نہ کراسکے جس سے مالکِ حقیقی ناراض ہوں۔